اے پی سی: ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ان کے لانے والوں سے ہے: نواز شریف

اسلام آباد(سب رنگ نیوز): بلاول بھٹو کی جانب سے بلائی جانے والی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ہمارا اصل ہدف عمران خان نہیں بلکہ مقابلہ انہیں لانے والوں سے ہے۔

تفصیلات کے مطابق حکومت کے خلاف حزب مخالف کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس جاری ہے جس میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ اے پی سے سے افتتاحی خطاب سابق صدر اور شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زردار نے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں ںے نواز شریف کا خیر مقدم کیا۔بعدازں لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس میں شرکت کی دعوت قبول کرنے والے قائد مسلم لیگ ن میاں محمد نواز شریف کانفرس کے شرکا سے خطاب کیا۔

نواز شریف
لندن سے اے پی سی میں بذریعہ ویڈیو لنک شریک ہونے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا مقابلہ عمران سے نہیں ان کے لانے والوں سے ہے۔ اے پی سے جو بھی لائحہ عمل طے کرے گی مسلم لیگ ن اس کا بھرپور ساتھ دے گی۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ روایت سے ہٹ کر حقیقی تبدیلی کے لیے لائحہ عمل طے کریں۔

علاج کے لیے لندن روانگی کے بعد پہلی مرتبہ باضا بطہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے والے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا کہ اختیار چند لوگوں کو دے دینا بددیانتی ہے۔الیکشن کے نتائج میں تبدیلی نہ ہوتی تو بیساکھیوں پر کھڑی حکومت وجود میں نہ آتی۔دکھ کی بات ہے معاملہ ریاست سے اوپر تک پہنچ چکاہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر ڈکیٹیٹر نےاوسط نو سال حکومت کی۔آئین پر عمل کرنےوالے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ عوام کی ووٹ سے جمہوری حکومت بننے پر ہاتھ پاؤں باندھ دئیے جاتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں 33سال کا عرصہ فوجی آمریت کی نذر ہو گیا۔ 73سالہ تاریخ میں ایک بار بھی کسی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ ریاستی ڈھانچہ کمزور ہونے کی بھی پروا نہیں کی جاتی۔عوامی مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے،پاکستان کو تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ مل کر او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے۔ خارجہ پالیسی کو بچوں کا کھیل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔سوچنا چاہیے کیوں ہمارے قریبی ممالک ہم پر اعتماد کرنا چھوڑ گئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کس منصوبے کے تحت بیان دیے جس سے سعودی عرب ناراض ہوا۔ بھارت نے کٹھ پتلی حکومت دیکھ کر کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا ہے اور ہم احتجاج بھی نہ کر سکے۔

انہوں نے کہا دنیا تو کیا اپنے دوست ممالک کی حمایت بھی حاصل نہ کر سکے۔کیوں ہم عالمی تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں،کیوں دنیا ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔نالائق حکومت نے ہر معاملے ہر یوٹرن لیا۔کشمیری عوام پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ہماری خارجہ پالیسی ملکی مفادات سے متصادم نہیں ہونی چاہیے۔ سی پیک کے ساتھ بی آر ٹی جیسا سلوک ہورہا ہے جہاں کئی سال بیت جانے کے باجود روازنہ مسائل کا سامنا ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ ملک بدامنی اور جرائم کا گڑھ بن چکا ہے۔قوم کی ایک بیٹی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ دل دہلا دیتا ہے۔حکومت کی تمام ہمدردیاں متاثرہ بیٹی کے بجائے افسر کے ساتھ ہیں۔

ووٹ کو عزت نہ ملی تو پاکستان معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا۔آج ملک میں مہنگائی بہت آگے بڑٰھ چکی ہے۔ آج بجلی اور گیس کے بل عوام پر بم بن کر گرتے ہیں ۔ ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دینے والوں نے روزگار چھین لیا۔

آمر کے بنائے گئے ادارے نیب کو قائم رکھنا ہماری غلطی تھی۔ اس ادارے کا سربراہ جاوید اقبال اپنے اختیارات کا نازیبا استعمال کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور یہ ڈھٹائی سے انتقامی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عمران خان بھی اس پر کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ ان کا یوم حساب آئے گا۔ نیب کا ادارہ اپنا جواز کھو بیٹھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی معاشی ترقی کے ساتھ مسلح افواج کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی اس حوالے سے کوتاہی نہیں کی اور آئندہ بھی نہیں کریں گے۔ ہم نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا۔ ملسح افواج آئین پاکستان اور قائد اعظم کی تلقین کے مطابق سیاست سے دور رہیں۔

آصف زرداری

آصف زرداری نے کہا ہے کہ ہم صرف حکومت گرانے کیلئے نہیں ملے ہیں۔ہم حکومت نکال کر جمہوریت بحال کرکے رہیں گے۔ میثاق جمہوریت سے ہم آہنگی پیدا کی تھی۔ شرکاء اے پی سی میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں۔ ہم نے کوشش کی دو سال میں جمہوریت بچے۔

انہوں ںے کہا کہ ناسمجھ سیاسی بونے سمجھتے ہیں وہ زیادہ ہوشیار ہیں۔ مجھ سے پہلے تخت نشین پوچھتا تھا آپ نے فارن آفس کو سے پوچھ لیا ہے تو میں کہتا تھا نہیں سر میں نے فارن آفس کو بتا دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں اس تقریر کے بعد جیل جانے والا پہلا بندہ میں ہی ہوں گا۔

شہباز شریف

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے کہا کہ اداروں سے بہت زیادہ تعاون ملنے کے باوجود حکومت ہر لحاظ سے بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔2018 کے الیکشن میں آرٹی ایس کیسے بند ہوا؟شہبازشریف تحقیقات کیلئے ہاؤس کی کمیٹی بنائی گئی لیکن کمیٹی نے سفر نہیں کیا۔ اگر کہوں کہ ملک میں جمہوریت نام کی ہے یہ بات غلط نہیں ہوگی۔ ملک میں مختلف اوقات میں حادثے ہوئے جن سے جمہوریت ڈی ریل ہوئی۔

یہ خبر بھی دیکھیے: سرداراختر مینگل اپوزیشن کی اے پی سی میں شریک نہیں ہوں گے

انہوں نے کہا کہ ملک میں احتساب کے نام پر اندھا انتقام لیا جارہاہے۔ احتساب کرنا ہوتا تو کابینہ میں بیھٹے لوگوں سے شروع کرتے۔ گندم اور چینی اسکینڈل کی ذمے داریہی حکومت ہے۔دس سال کے قرضے ایک طرف اور ان کے دو سال کے قرضے ایک طرف۔ پاکستان کے زرمبادلہ کا استعمال کریمینل طریقے سے ہورہاہے۔ چینی پہلے برآمد اورپھر درآمد کی گئی۔

کورونا سے قبل ہی پاکستان کی معیشت کو شدید ضرب لگی۔ سلیکٹڈ وزیراعظم نے آفت زدہ لوگوں کوبے سہارا چھوڑ دیا۔ قرضوں کے حصول کے باوجود مہنگائی آسمان سے باتین کررہی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری

اے پی سی کے میزبان اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ جمہوریت کے بغیر معیشت اور معاشرے کو ہرطرف سے کمزور کیا جاتاہے۔ کوشش کی تھی یہ ایونٹ بجٹ سے قبل ہو۔عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ عوام اس اے پی سی سے ٹھوس لائحہ عمل چاہتے ہیں۔ عوام چاہتے ہیں آئین کے مطابق ان کو حق دینے کا وعدہ پورا ہو۔ جمہوریت نہیں ہوگی تو عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا جائے گا۔دوسال کا پی ٹی آئی حکومت کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایوانوں کو آزاد کرا کے ان کا قبضہ چھوڑنا پڑے گا۔ فورم جو بھی فیصلہ کرے گا پیپلزپارٹی ان کے ساتھ ہے۔ ملک چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں نکلنا پڑے گا۔ عوام کے دروازے پر جاکران کو اپنے ساتھ ملانا پڑے گا۔عوام نئی نسل کیلئے ہمارے ساتھ مل کر جمہوریت کا مطالبہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔منتخب نمائندے نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو نہیں سنا جاتاہے۔بارشوں اور سیلاب کے بعد عوام کو لاوارث چھوڑ دیا گیا۔

کانفرنس کے شرکا اور ایجنڈا

کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی خان، آفتاب شیرپاوٴ بھی شریک ہیں۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر تمام جماعتیں حکومت گرانے اور ملک گیر منظم تحریک چلانے کا مطالبہ کریں گی۔ اے پی سی میں گلگت بلتستان الیکشن، گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور حکومت کی کشمیر پالیسی کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ مذہبی جماعتیں بھی حالیہ صورتحال پر اپنا موقف سیاسی قیادت کے سامنے رکھیں گی۔اجلاس میں ایف اے ٹی ایف مسائل، حکومت کی متنازع قانون سازی اور خطے کی بدلتی صورتحال بھی زیر بحث آئے گی۔

تمام 11 جماعتوں سے کم از کم تین تین ارکان کا وفد اے پی سی میں شریک ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کا 13 رکنی وفد اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کررہا ہے۔

اے پی سی کے لیے پیپلز پارٹی کی تجاویز تیار

پیپلز پارٹی نے اے پی سی کے لیے اپنی تجاویز تیار کرلیں۔ پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعلی پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز پیش کی جائے گی، پیپلز پارٹی تمام تجاویز اے پی سی کے سامنے رکھے گی، اگر جماعتوں نے حمایت کی تو باضابط تحریک جمع کرائی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ اے پی سی میں رہبر کمیٹی کی طرز پر کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز بھی دی جائے گی۔